Sunday, October 14, 2012

بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے

بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے
اب توجینے کی آس کم کم ہے

سانس لیتے تھے ہجر موسم میں
اب یہ موسم بھی راس کم کم ہے

تتلیاں اڑ گءیں یہ غم لے کر
اب کے پھولوں میں باس کم کم ہے

دل جو ملنے کی ضد نہیں کرتا
اب یہ رہتا اداس کم کم ہے

اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں
وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے

گام گام خواہشیں

گام گام خواہشیں
ناتمام خواہشیں

ہر خوشی کی موت ہیں
بے لگام خواہشیں

لے ہی آءیں آخرش
زیرِ دام خواہشیں

ہوش میں نہیں ہوں میں
صبح و شام خواہشیں

کاٹتی ہیں روح کو
بے نیام خواہشیں 

Thursday, December 9, 2010

کیا محسوس کیا تھا تم نے میرے یار درختو

کیا محسوس کیا تھا تم نے میرے یار درختو
تنہائی جب ملنے آئی پہلی بار درختو

ہر شب تم سے ملنے آ جاتی ہے تنہا تنہا
کیا تم بھی کرتے ہو تنہائی سے پیار درختو

تنہائی میں بیٹھے بیٹھے اکثر سوچتا ہوں میں
کون تمہارا دلبر‘ کس کے تم دلدار درختو

لڑتے رہتے ہو تم اکثر تند و تیز ہوا سے
تم بھی تھک کر مان ہی لیتے ہو گے ہار درختو

اب کے سال بھی پت جھڑ آئے گا یہ ذہن میں رکھو
اتنا خود پہ کیا اترانا سایہ دار درختو

خود تم دھوپ میں جھلس رہے ہو مجھ پر سایہ کرکے
یہ ہے سیدھا سیدھا چاہت کا اظہار درختو

میں جب اپنے حق میں بولوں تم ناراض نہ ہونا
غیروں سے ہمدردی کرنا ہے بے کار درختو

Wednesday, October 20, 2010

راز کی بات کوئی کیا جانے

راز کی بات کوئی کیا جانے
میرے جذبات کوئی کیا جانے

میرے حصے میں ہجر آیا ہے
ہجر کی رات کوئی کیا جانے

روز ہوتی ہے گفتگو تجھ سے
یہ ملاقات کوئی کیا جانے

کس قدر ٹوٹ پھوٹ ہے مجھ میں
میرے حالات کوئی کیا جانے

بے سبب خود سے دشمنی کر لی
یہ مری مات کوئی کیا جانے

Saturday, June 12, 2010

تُو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر

تُو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر
جاتے ہوئے بس ایک نظر دیکھ لیا کر

انسان پہ لازم ہے کہ وہ خود کو سنوارے
دھندلا ہی سہی آئینہ‘ پر دیکھ لیا کر

حسرت بھری نظریں ترے چہرے پہ جمی ہیں
بھولے سے کبھی تُو بھی اِدھر دیکھ لیا کر

رستے سے پلٹنے سے تو بہتر ہے مرے دوست
چلتے ہوئے سامانِ سفر دیکھ لیا کر

Thursday, June 10, 2010

ستارے سب مرے‘ مہتاب میرے

ستارے سب مرے‘ مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے

ابھی اڑنا ہے مجھ کو آسماں تک
ہوئے جاتے ہیں پر بے تاب میرے

میں تھک کر گر گیا‘ ٹوٹا نہیں ہوں
بہت مضبوط ہیں اعصاب میرے

ترے آنے پہ بھی بادِ بہاری
گلستاں کیوں نہیں شاداب میرے

بہت ہی شاد رہتا تھا میں جن میں
وہ لمحے ہو گئے نایاب میرے

ابھی آنکھوں میں طغیانی نہیں ہے
ابھی آئے نہیں سیلاب میرے

سمندر میں ہوا طوفان برپا
سفینے آئے زیرِ آب میرے

تُو اب کے بھی نہیں‌ ڈوبا شناور
بہت حیران ہیں‌ احباب میرے

Thursday, January 14, 2010

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام
حالاں کہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام

صیاد سے قفس میں بھی کوئی گلہ نہیں
میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹے ہیں پر تمام

کب سے بلا رہا ہوں مدد کے لیے انہیں
کس سوچ میں پڑے ہیں مرے چارہ گر تمام

جتنے بھی معتبر تھے وہ نامعتبر ہوئے
رہزن بنے ہوئے ہیں یہاں راہبر تمام

دل سے نہ جائے وہم تو کچھ فائدہ نہیں
ہوتے نہیں ہیں شکوے گلے عمر بھر تمام