بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے
اب توجینے کی آس کم کم ہے
سانس لیتے تھے ہجر موسم میں
اب یہ موسم بھی راس کم کم ہے
تتلیاں اڑ گءیں یہ غم لے کر
اب کے پھولوں میں باس کم کم ہے
دل جو ملنے کی ضد نہیں کرتا
اب یہ رہتا اداس کم کم ہے
اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں
وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے